Belgium History

بلجئیم کا شاہی خاندان


جدید بلجئیم کی تاریخ








کا آغاز اگرچے کہ 1830 سے کیا جاتا ہے مگر بلجم کا ماضی تاریخ کے حوالے سے بہت ہی تابناک ہے جب روم کی سلطنت قائم تھی اور اس وقت دنیا کی سپر پاور روم کی سلطنت تھی یورپ کا مرکز روم تھا تو 58 قبل مسیح میں روم کے مشہور و معروف جرنیل جولیس سیزر نے اس خطے میں واقع باغی بلجی قبیلے کی سرکوبی کے لئے اس خطے پر حملہ کیا اور ان باغی بلجی قبیلے کو رومی سلطنت کا وفادار بنا دیا یہ ہی بلجی قبائل دراصل بعد میں جدید بلجئم کے بانی بنے بلجی قبائل کے نام پر موجودہ بلجئم کا نام رکھا گیا ۔
جولیس سیزر کے ز مانے میں اور اس کے بعد رومی حکومت کے دور میں اس خطے کوگالیابلجیکا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔تیسری صدی عیسوی میں جب روم پر پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین اعظم حکمران بنا تو اس وقت حکمران عیسائی اور سابق رومی حکمرانوں جو کہ اس وقت عیسائی حکمرانوں کے نزدیک کافر تھے اقتدار کی جنگ چھڑی تو یورپ کی مختلف مملکتوں میں ایک خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو قسطنطین اعظم نے طے کیا کہ مشرق میں ایک نئے شہر کی بنیاد دالی جائے جہاں پر رومی بت پرستی نہ ہو جہاں وہ اپنے عیسائی مذہب کے مطابق باسانی زندگی بسر کرسکتا ہو جہاں سے رومی حکومت کے تما م صوبوں کی نگرانی کی جاسکے تو اس نے اس مقصد کے لئے یورپ اور ایشیا کے سنگم پر آبادقدیم زمانے کے شہر بیزطینیم شہر کا انتخاب کیا اس شہر نے بعد میں قسطنطین کے نام پر قسطنطنیہ کا نام اختیار کرلیا 11 مئی 330 میں سنگ بنیاد رکھے جانے والے اس نئے شہر قسطنطین کے رومی سلطنت کے مرکز بننے کے بعد سے ایک جانب روم کی حکومت کا خاتمہ تو ہوا ہی تھا دوسری جانب یورپ کی اجتماعیت کا بھی خاتمہ ہو گیا روم کی مرکزیت بالکل ہی ختم ہوگئی تھی اس کے ساتھ ہی عیسائی دنیا دو حصوں مغربی (رومن) کلیسا اور مشرقی (آرتھوڈکس) کلیسا میں بھی تقسیم ہو گئی یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع روم سے بہت دور ایشیائے کوچک کے نزدیک جس نئے روم کی بنیاد رکھی تھی اگرچے ہر اعتبار سے دیگر شہروں کے مقابلے میں اہمیت اختیار کرتا چلا گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ یورپ کی اجتماعیت کے خاتمے کا باعث بھی بناجبکہ آنے والے وقتوں میں یورپ میں طویل مدت تک عیسائیت کے ان ہی دونوں فرقوں کے پیروکاروں کے درمیان اور ان کے مخالفین کی جنگ بھی لڑی جاتی رہی جس کی وجہ سے ایک جانب تو قدیم روم کے ارد گرد ایسی مملکتیں قائم ہوتی چلی گئیں جو کہ قسطنطنیہ کی مرکزی حکومت کی باغی تھیں جنہوں نے مکمل طور پر آزاد ریاست ہونے کا دعویٰ کیا دوسری جانب خود عیسائی دنیا کے درمیان افتراق و انتشار کا بھی باعث بنتی رہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یورپ کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں یورپ کی قدیم تاریخ جہاں ایک جانب عیسائیت کے فروغ کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کی داستانوں سے پُر ہے وہیں پے اس دو ہزار سالہ تاریخ میں ہمیں جو اہم بات ملتی ہے وہ یہ کہ مختلف صدیوں میں یورپ کے مختلف علاقوں فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکمرانوں نے قدیم رومی سلطنت کے احیا کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی اردگرد کی ریاستوں پر بزور قوت قبضہ جمانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے یورپ کا مرکزی علاقہ جس میں آسٹریا، ہنگری، جرمنی، ہالینڈ اورفرانس شامل ہیں طویل مدت تک میدانِ جنگ بنا رہا( جس کو ایک طرح سے ہم خانہ جنگی ہی کہہ سکتے ہیں )یہ ہی وجہ ہے کہ یورپ کی دو ہزار سالہ تاریخ کے دوران کئی مملکتوں کا سو رج طلوع ہوا اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کا نام اس طرح سے مٹا کہ تاریخ میں ان کے تذکرے کے علاوہ ان کے آثار ملتے ہی نہیں ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اس خانہ جنگی کے دوران یورپ کے مفکرین اور دانشوروں نے اپنی اپنی سطحوں پر اور دائیروں اور اقوام میں جو کام کیا اس کا اعتراف نہ کرنا تعصب اور کم علمی کی نشاندہی کرتا ہے وہ یہ کہ ان دانش وروں نے اور سائنسدانوں نے اپنی اقوام کو ا س خانہ جنگی سے نکالنے کے لئے ہر سطح پر علم کے پھیلاؤ اور اس کو عام کرنے کی کوشش کی عوام الناس کے شعور کو بلند کرنے کی کو شش کی اس کی ایک بڑی مثال یورپ میں جرمنی کے اندر 15 صدی کے اندر اٹھنے والی بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے کی تحریک کی ہے یہ تحریک جو جرمنی کے ایک پادری مارٹن لوتھر نے 1555ء میں شروع کی اس تحریک کے آغاز میں یہ بات عام کی گئی کہ خدائی کلام کو براہ راست ہر فرد پڑھ سکتا ہے اور اس پر عمل کرسکتا ہے مارٹن لوتھر نے بائبل کا پہلی بار جرمن زبان میں ترجمہ کیا مارٹن لوتھرکا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ انسان کی نجات ایمان پر موقوف ہے فرد اور خدا کے درمیان کسی مذہبی پیشوا کے واسطے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے اس تحریک کو بعد میں پروٹسٹنٹ تحریک کا نام دیا گیا جو بعد میں عیسائیت کے ایک بڑے فرقے پروٹسٹنٹ کا روپ دھار گیا پروٹسٹنٹ تحریک بعد میں یورپ کے تمام ملکوں میں عوام الناس کے درمیان مقبولیت اختیار کرتی چلی گئی اس کے نتیجے میں اس تحریک کو کیتھولک فرقے اور اس کے روحانی، پیشواؤں،پوپوں،کی جانب سے سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا یورپ میں دانشوروں اور سائنسدانوں نے عوام کے شعور کو بلند کرنے کی اس کے علاوہ بھی بہت سی کوششیں کیں ان کی جانب سے شروع کردہ علم و آگاہی کی تحریک نے یورپ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتائج اس وقت دنیا کے سامنے اس طرح سے آئے ہیں کہ آج یورپی اقوام کے ہاتھ میں دنیا کی قیادت ہے ۔
بلجئم جو کہ یورپ کے وسط میں واقع ہے اور یورپ کی کئی اہم ترین مملکتیں فرانس، جرمنی اور ہالینڈ اس کے ہمسایہ ہیں یورپ میں ہونے والی خانہ جنگی اور احیاء علوم کی اس تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اگرچے کہ اس خانہ جنگی کے دوران بلجئم پر یورپ کے مختلف ممالک کا کنٹرول رہا اب سے تقریباً ایک ہزار سال قبل بلجئم پر اٹلی کا قبضہ تھا جس کو یورپی تاریخ میں مقدس رومن سلطنت کہا جاتا ہے جس کا تقریباً دو صدیوں تک براہ راست قبضہ رہا رومن سلطنت کی جانب سے اس خطے کو سینٹ مائکل کی اسٹیٹ کہا جاتا تھا اس کے بعد تیرہویں صدی کے آغاز میں بلجئم پر فرانسیسیوں نے حملہ کردیا جس میں شکست کھانے کے بعد بلجئم فرانس کے مقبوضہ علاقوں میں شامل ہو گیا اس کے بعد سے کبھی بلجئم آزاد ہو جاتا تھا اور کبھی کسی پڑوسی ملک کے کنٹرول میں چلاجاتاتیرہویں صدی میں بلجئم پر ڈیوک آف فلینڈر نے قبضہ کرلیا اس وقت اس ریاست کو برگنڈی کی ریاست کے نام سے پکارا جاتا تھا بلجئم کا دارلخلافہ برسلز اس وقت برگنڈی کی ریاست کا دار لخلافہ تھا یہ ہی برسلز کا عروج اور ابتداء ہے 1477 میں برگنڈی کی حکمران میری کی شادی آسٹریا کے ہیپسبرگ خاندان کے میکسملین کے ساتھ ہوئی 1482 میں میری کی وفات کے ساتھ ہی برسلز اور برگنڈی کا الحاق آسٹریا کے ساتھ ہو گیا اس طرح بلجئم ہیپسبرگ خاندان کے زیر تسلط آگیا جو یورپ کے بڑے حکمرانوں میں شمار کئے جاتے تھے کے زیر تسلط آگیا میکسملن کی وفات کے بعد اس کی بیٹی ریجنٹ مارگریٹ برسلز میں آ گئی اور اس خطے کا اقتدار سنبھال لیا اس نے اپنا جانشین اپنے بھانجے چارلس پنجم کو مقرر کیا 1515ء میں چارلس پنجم نے پندرہ برس ہی کی عمر میں ریاست برگنڈی کے نواب کی حیثیت سے ریاست کا اقتدار سنبھالا جو کے فرانس کی باجگزار ریاست تصور کی جاتی تھی اس وقت یورپ کی سب سے طاقتور سلطنت اسپین کی تھی فرانس اور اسپین کے حکمرانوں کے درمیان 1521ء میں جنگ چھڑی اس جنگ میں فرانس کے بادشاہ فرانسس اول نے اسپین کے حکمران چارلس کے ہاتھوں شکست کھائی فرانسس کو قید کرکے اسپین کے دار لخلافہ میڈرڈ لایا گیا میڈرڈ میں ایک معاہدے کے تحت برگنڈی کی ریاست اسپین کے چارلس کے حوالے کردی گئی اس طرح اب برگنڈی کی ریاست اسپین کے ماتحت تصور کی جانے لگی چارلس کے دور اقتدار میں برگنڈی پر رومن کیتھولک حکمرانوں کی حکمرانی ہوگئی جو کے مذہبی معا ملات میں بہت کٹر تھے اسی دوران جرمنی کے پادری مارٹن لوتھر نے اس تحریک کا احیا کیا جلد ہی بلجئم کے عوام بھی اس تحریک سے متاثر ہونے لگے چونکے اس تحریک کے دوران مارٹن لوتھر نے بائبل کی تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے حقوق دلانے کا بھی علم بلند کیا تھا اس لئے بلجئم کے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے حقوق کے حصول کے لئے مارٹن لوتھر کے ساتھ ہو گئی اگرچے کہ اس تحریک کے دوران انہوں نے اسپین کے حکمرانوں کے خلاف بغاوت بھی کی اس طرح سے اسپین کے حکمرانوں کے خلاف ایک طرح سے بغاوت بھی ہوئی اس بغاوت کے دوران اس وقت آٹھ ہزار کے قریب پروٹیسٹنٹ مارے گئے مگر اس بغاوت کواسپین کے حکمرانوں نے پوپ کے ساتھ مل کر دبا دیا مگر اس کے نتیجے میں عوام کے اندر رومن کیتھولک عوام کے خلاف نفرت سی پھیلتی چلی گئی عوام کی جانب سے اپنے حکمرانوں کے خلاف مختلف اوقات میں مزاحمت بھی ہوتی رہی جبکہ اسپین کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں بھی پروٹیسٹنٹ تحریک کے ماننے والوں کی وجہ سے ایک طرح سے بغاوت پھیلتی گئی اور اسپین کے خلاف جذبات بھڑکتے رہے مگر اس وقت اسپین یورپ کی سپر پاور تھا اس لئے اس کے خلاف کسی بھی طرح کی کو ئی بڑی جدوجہد نہیں ہو سکی ۔
مگرجلد ہی 1588ء میں ایک موقع اس طرح سے آگیا کہ یورپ کی ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت برطانیہ کواسپین کے حکمرانوں نے سزا دینے کا فیصلہ کیا اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے بحری بیڑے کو جو یورپ کا بہت بڑا بحری بیڑہ تھا بر طانیہ بھیجا کہ برطانوں حکمرانوں کو گرفتار کرکے میڈرڈ لایا جائے مگر ہوا کچھ اس کے برعکس بہادر برطانوی جرنیلوں نے اس وقت یورپ کی سپر پاور اسپین کے مشہور بحری بیڑے آرمیڈہ Armada کو جس میں اس وقت 132 چھوٹے بڑے جنگی جہاز شامل تھے جبکہ 3165 چھوٹی بڑی توپیں ان جہازوں پر لگیں ہوئی تھیں برطانیہ پر حملہ کرتے ہو ئے اپنے جرنیلوں ڈریک ھاورڈ اور ھاکنز کی سربراہی میں دو بار انگلستان میں بری طرح شکست دی یہ شکست یورپی سپر پاوراسپین کے زوال اور خاتمے کی ابتدا تھی مگر اس کے بعد بھی بلجئم بدستور اسپین کا حصہ ہی بنا رہا ۔
بلجئم اگرچے ان دنوں ان بڑی سلطنتوں کے ایک صوبے کی حیثیت رکھتا تھا مگر اس کے باوجود اپنے محل وقوع کی بنا پر اس خطے کا اہم ترین تجارتی مرکز بن چکا تھا بلجئم کے بہادراور محنتی عوام نے انتھک محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں ارد گرد کے ممالک کے مقابلے میں بلجئم کو ہر اعتبار سے بہتر بنا دیا تھا بلجئم کے بازار اس دور میں بھی دنیا کے تجارتی سامانوں سے بھرے ہوئے تھے جبکے ہنرمندوں نے بہترین مصنوعات کو بنا کر بلجئم کو یورپ کا صنعتی علاقہ بنا دیا تھا اس وجہ سے یورپ کی طاقتوں کے نزدیک بلجئم کی بہت ہی اہمیت تھی اور اس وقت ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے بلجئم ان کی سلطنت کا حصہ یا صوبہ بن جائے اکثر بار اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہتے تھے پندرہویں صدی کے آخر میں اور سولہویں صدی کے شروع میں بلجئم پر اس کے پڑوسی ملک فرانس جو کے اب اس خطے کی بڑی طاقت کی حیثیت اختیار کرچکا تھا دعویٰ کیا فرانس کی سرحدیں بلجئم کے ساتھ ملتیں بھی ہیں جلد ہی فرانس کی افواج بلجئم میں داخل ہو گئیں اور ان کا اقتدار بلجئم پر قائم ہو گیا مگر اس کے ساتھ ہی اسپینی افواج بھی اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوگئیں اس کے نتیجے میں کچھ مدت کے بعد آپس کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر اس کے ساتھ ہی یورپ کی تاریخی لڑائیوں کا بھی سلسلہ شروع ہوا ان لڑائیوں کو سہ سالہ لڑائی کہا جاتا ہے یہ یورپ کی اہم ترین اور فیصلہ کن لڑائیاں ہیں ان لڑائیوں میں ایک فریق یورپ کے رومن کیتھولک اور ان کا سربراہ پوپ اور اس کے ماننے والے بادشاہ حکمران اور عوام تھے جو کہ پوپ کے پیروکار تھے دوسرے فریق پروٹسٹنٹ تھے جنکے خیالات کو اب یورپ کے تمام حصوں میں مقبولیت حاصل ہوتی جارہی تھی ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو باقی رکھنے کے لئے اس وقت کے پوپ کی جانب سے جرمنی کے بادشاہ فرڈیننڈ ثانی نے اس نعرے کے ساتھ جنگ شروع کی کہ یورپ سے پروٹسٹنٹوں کو نکال دیا جائے اس تیس سالہ جنگ کے دوران پوپ اور اس کے ماننے والے جن میں جرمنی، فرانس اوراسپین کے بادشاہ ایک فریق تھے دوسرے فریق سویڈناور ڈنمارک کے نواب پروٹسٹنٹوں کی حمایت میں میدان میں اترے تیس سال تک لڑی جانے والی اس جنگ کے دوران اگرچے کہ بڑی تعداد میں پروٹسٹنٹ مارے گئے مگر اس تیس سالہ جنگ کے اختتام پر جو معاہدہ کیا گیا اس معاہدے کی اہم ترین شق یہ تھی کہ تما م لوگوں کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے اور کیتھولک او ر پرو ٹسٹنٹ تمام یوروپی ممالک میں یکساں حقوق کے ساتھ رہ سکیں گے اور ان کے ساتھ تمام حکومتیں یکساں سلوک کریں گی نیز یہ کہ تمام مسالک کے ماننے والوں کے حقوق برابر کی سطح پر تسلیم کئے گئے۔
پروٹسٹنٹنوں کی اس فتح اور ان کو قانونی حقوق مل جانے کے بعد بلجئم پر بھی اچھے اثرات پڑے کیونکہ بلجئم کے عوام کی ایک بڑی تعداد پروٹسٹنٹ عقائد کی حامل تھی اور ان پر پابندیوں کے نتیجے میں بلجئم کی معیشت متاثرہورہی تھی تیس سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے نتیجے میں ایک جانب تو یوروپی عوام کو ان کے حقوق ملے دوسری جانب یورپ میں اس ا نسانی حقوق کی آزادی کی ابتدا بھی ہوئی جس کو آج ہم دیکھتے ہیں اس طرح سترہویں صدی کو یور پ کی مذہبی آزادی کی صدی کہی جاسکتی ہے۔
بلجئم اس وقت تک یورپ کی دیگر قوتوں کے زیر دست ہی تھا مگر اب یورپ میں اٹھنے والی آزادی کی لہر کے اثرات بلجئم پر بھی پڑ رہے تھے بلجئم اس صورتحال میں اپنے محل وقوع کی بنا پر اور اپنے ہنر مندووں کی مہارت کی وجہ سے جلد ہی ایک اچھی تجارت منڈی یا مارکیٹ بن گیا جہا ں پر دنیا بھر کے تاجر اور صنعت کار اپنا اپنا مال تجارت لے کر آتے اور اس کو بلجئم میں فروخت کیا جاتا جب کے بلجئم میں بنی ہوئی شراب ارد گرد کے عوام کے لئے ایک اچھی شراب تصور کی جاتی تھی اسی طرح بلجئم میں ہیروں اور سونے کی بھی منڈیاں بنتی چلیں گئیں یورپ کی ایک دوسری قوت آسٹریا کے بادشاہ تھے جن کی رشتے داریاں یورپ کے تمام بادشاہوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے تھی آسٹریا کی افواج نے یورپ کے کئی مضبوط بادشاہوں کو میدان جنگ میں شکست سے دوچار کردیا تھا ایک موقع پر آسٹریا کے بادشاہوں نے بلجئم کو اپنی مملکت کا حصہ بنا لیا اس وجہ سے ان کی سلطنت کی سرحدیں جرمنی اور ہالینڈکے ساتھ مل گئیں مگر آسٹریا کے اقتدار کی مدت کچھ زیادہ نہیں رہی 1789ء میں پڑوسی ملک فرانس کے عوام کی جانب سے شہیشاہیت کا تختہ الٹنے کے اثرات بلجئم کے عوام پر بھی پڑے اب ان کے لئے آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت بن چکی تھی اس مقصد کی خاطر اب وہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے آمادہ تھے اس لئے جلد ہی بلجئم کے عوام آزادی کی منزل کی جانب گامزن ہو گئے مگر ان کے پڑوسی ملک فرانس کے مشہور جرنیل نیپولین نے فرانس کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بلجئم پر اپناقبضہ جما لیا مگر روس میں فرانس کی بدترین شکست کے بعد او ر فرانس کی افواج کی تباہی کے بعد نپولین کو1814 میں پہلی بار اقتدار چھوڑنا پڑ گیا اور اسے ایلبانامی جزیرے میں جلاوطن کردیا گیا فرانس کے مقتول بادشاہ لوئی شانزد ھم کے بھائی کو لوئی ھیژ دھم کے لقب سے فرانس کا بادشاہ بنا دیا گیا اور اس کے ساتھ فرانس کے زیر تسلط علاقے ہالینڈ، سوئزرلینڈ، جرمنی اور اٹلی کی ریاستوں کو بھی آزادی مل گئی اسپین اور سارڈینا کی ریاستوں کو بحال کردیا گیا مگر جلد ہی اطلاع ملی کہ نپولین ایلبا جزیرے سے واپس آگیا ہے اور فرانسیسی قوم نپولین کا استقبال کررہی ہے وہ صرف پندرہ سو افراد اپنے ہمراہ لایا تھا مگر بندرگاہ پر اترنے کے ساتھ ہی اس کی افواج میں اضافہ ہوتا چلا گیا جو افواج نپولین کامقابلہ کرنے کے لئے بھیجی گئیں تھیں و ہ نپولین کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے ساتھ ہوتی گئیں 20 مارچ 1815ء کو نپولین پیرس پہنچا نیا بادشاہ لوئی ہیژ دھم پیرس چھوڑ کر فرار ہو گیا نپولین کی واپسی کی خبر سن کر آسٹریا، برطانیہ پروشیا اور روس نے اتحاد کرلیا اور نپولین کے مقابلے میں ایک ایک لاکھ اسی ہزار فوج کو فراہم کرنے کامعاہدہ کیا نپولین کو اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے قوی دشمن کا سامنا کرنا پڑ گیا ابتدائی مقابلوں میں نپولین کو کامیابی حاصل ہوئی مگر جلد ہی متحد دشمن کی افواج سے بلجئم کے مشہور مقام واٹرلو پر سامنا کرنا پڑاابتدا میں نپولین کو فتح حاصل ہوئی مگر اتحادی افواج کو جلد ہی کمک مل جانے کی و جہ سے ان کی شکست فتح میں تبدیل ہوگئی جو کہ نپو لین کی شکست پر ختم ہوئی۔
نیپولین کی شکست یورپ کی جغرافیائی تبدیلیوں کا بھی سبب بنی جو ممالک فرانس کے زیر تسلط تھے ان کو اتحادی اقوام نے یا تو آزاد کردیا یا پھر اپنے صوبے بنا دئے یہ ہی کچھ بلجئم کے ساتھ بھی ہوا اس کو ہالینڈ کی ماتحتی میں دے دیا گیا مگر بلجئم کے عوام نے اس کو ناپسند کیا اور انہوں نے اپنی اس ناپسندیدگی کا اظہار بھی جلسو ں اور آزادی حاصل کرنے کے اقدامات کے زریعے کیا ان کی یہ رائے اتحادی اقوام کے سربراہوں تک بھی پہنچ گئی اس وقت ان سربراہوں کے نزدیک ضروری تھا کہ یورپ میں کسی بھی طرح کی کوئی سیاسی چپقلش نہ پیدا ہو کیونکہ و ہ یہ بات جانتے تھے کہ کسی بھی وجہ سے عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی کی فضا ان کے اقتدار کو کمزور کرنے کا باعث بن جاتا اور اس کا عین امکان ہے کہ ان کو بھی فرانس کے خونی انقلاب جیسے انقلاب کا سامنا کرنا پڑ جائے اس لئے انہوں نے بہتر یہ تصور کیا کہ بجائے اس کے کہ و ہ کسی نئے انقلاب کو بھگتیں بلجئم کو آزادی دیدیں اس طرح عوام کی رائے کیمطابق بلجئم کی نئی مملکت قائم کی گئی جس کی آزادی کی ضمانت تمام یورپی سلطنتوں نے لی بلجئم کا قدیم شاہی خاندان جس نے بلجئم کی آزادی کے لئے بہت جدوجہد کی تھی بلجئم کے عوام کی خواہش کے عین مطابق اس نئی مملکت کا آئینی حکمران بنا جس کی قیادت کی وجہ سے بلجئم نے ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھا او ر جلد ہی یورپ کے ترقی یافتہ مما لک کی صف میں شامل ہو گیا ۔
بلجئم کے پہلے حکمران شاہ لیوپولڈ اول بنے جو انتہائی محنتی اور اپنی عوام سے محبت کرنے والے حکمران تھے انہوں8 نے بلجئم میں یورپ کی پہلی بین البراعظم ریلوے کا افتتا ح کیا جس کی و جہ سے بلجئم کا رابطہ تمام یورپ کی منڈیوں سے براہ راست ہو گیایوں یورپ کی تمام منڈیوں کا سامان تجارت بلجئم کی مارکیٹوں او ر شہروں میں آنے لگا یوں جلد ہی بلجئم ایک طرح سے یورپ کی تجارتی منڈی بنتا چلاگیا یہ بات بڑی ہی دلچسپی کا باعث ہے کے دنیا کا پہلا شاپنگ مال گلیرئیس سینٹ ہبرٹ بھی بلجئم میں 1835ء میں قائم کیا گیا تھا جو کہ بلجئم کے تجارتی مرکز ہو نے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے جبکہ 1840ء میں بلجئم کے تاجروں اور حکومتی نمائندوں نے افریقہ میں کانگو پر قبضہ کیا جو کہ بعد میں دنیا کے سامنے بلجئم کانگو کے نام سے مشہور ہوا کانگو میں بلجئم کے تاجروں نے سونے کی کان دریافت کی جہاں سے آج بھی دنیا بھر کو سونا فراہم کیا جاتا ہے 1910ء میں عالمی تجا رتی نمائش کا انعقاد کیا گیا جس کی وجہ سے بلجئم کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بین الاقوامی سطح پر مقبولت حاصل ہوئی مگر بلجئم کی اس بڑھتی ہوئی ترقی کو اس وقت نقصان پہنچا جب بلجئم کے پڑوسی طاقتور ملک جرمنی کے بادشاہ قیصر نے اچانک کمزور بلجئم پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے بلجئم جو کہ جرمنی کے مقابلے میں ہر اعتبار سے انتہائی کمزور تھا طاقتور جرمنی کا مقابلہ نہیں کرسکا اور یوں پہلی جنگِ عظیم کے دوران بلجئم پر جرمنی کا ہی قبضہ رہا جو کے جرمنی کی شکست اور پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ختم ہوا بہادر اور محنتی بلجئم کی قوم نے غلامی کے ان چند سالو ں کی تلافی کرنے کے لئے دوبارہ انتہک محنت کی جس کی وجہ سے بلجئم ایک بار پھر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوگیا1935ء میں عالمی ایکسپو کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر کے تاجروں نے شرکت کی مگر جلد ہی ایک بار دوبارہ سے یورپ کی فضاؤں میں جنگ کے بادل منڈلانا شروع ہو گئے 1939 میں دو سری جنگِ عظیم کی ابتدا ہوئی جرمنی کے ڈیکٹیٹر ہٹلر نے اپنی افواج کے زریعے بلجئم پر دوبارہ قبضہ کرلیا یہ واضح رہے کہ بلجئم اپنے پڑوسی ممالک فرانس، ہالینڈ اور جرمنی کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بہت ہی چھوٹا ملک ہے یہ ہی و جہ ہے کہ جرمنی کی جانب سے بلجئم پر حملہ کیئے جانے کے بعد جلد ہی جرمن افواج بلجئم پر قابض ہوگئیں یہ قبضہ جرمنی کے ڈیکٹیٹر ہٹلر کی شکست کے بعد ختم ہوا بلجئم کے عوام نے اپنے بادشاہ کی قیادت میں بلجئم کی تعمیرکا ازسر نو آغاز کیا اب کی بار پہلے سے زیادہ محنت او ر لگن کے ساتھ بلجئم کی ترقی کیلئے جدوجہدکی گئی جس کے نتیجے میں جلد ہی بلجئم ترقی کی منزل کی جانب گامزن ہو گیا 1951ء میں بلجئم کے بادشاہ لیوپولڈ سوئم نے نئے بادشاہ بو ئڈئین Baudouinکے حق میں استعفیٰ دیدیا نئے بادشاہ بوئڈئین Baudouinنے بلجئم کی ترقی کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے بوئڈئین Baudouin جو کہ 1993ء میں اپنی وفات تک برسراقتدار رہے بلجئم کے عوام میں بے حد مقبول تھے اور ان کے اقتصادی اور معاشی اقدامات کی وجہ سے بلجئم نے معاشی اعتبار سے بہت ترقی کی بلجئم کے نئے بادشاہ کنگ البرٹ دوئم اپنے پیش رووں کی مانند بہت ہی متحرک اور بیدار مغز بادشاہ ہیں انہوں نے اپنے بزرگوں کی مانند بلجئم کے عوام کے لئے بہت سے کام انجام دئے ہیں اسی لئے بلجئم کے عوام بھی اپنے بادشاہ اور شاہی خاندان سے بہت محبت کرتے ہیں